Wednesday 23 July 2014

پارکنگ فرشتے۔۔۔

روشنیوں کے شہرکراچی میں جگہ جگہ ٹریفک جام۔۔۔ ہر طرف نو پارکنگ کے بورڈز۔۔۔ لیکن پھر بھی آسانی سے ہر کوئی اپنی سائیکل۔۔ موٹرسائیکل۔۔۔ چنگچی۔۔۔
رکشہ۔۔۔ گدھا گاڑی۔۔ اور گاڑی پارک کرہی لیتا ہے۔۔۔ رمضان میں رات کے وقت بازاروں کے باہرگاڑی پارک کرنا عذاب سے کم نہیں ہوتا۔۔ اوراس وقت اللہ میاں کو شدت سے یاد کیا جاتا ہے۔۔۔ گاڑی دھیرے دھیرے سے آگے بڑھتی اور نگاہیں پارکنگ کی جگہ تلاش کرنے میں لگ جاتی ہے۔۔۔ ایسے میں امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔۔۔ لوگ انہیں پارکنگ مافیا اور میں پارکنگ فرشتہ کہتا ہوں۔۔۔

ہاتھ میں دونمبرپرچیاں تھامے اوراشارے کرتے یہ فرشتے دور سے ہی اپنے گاہگ کو بھانپ لیتے ہیں۔۔۔ چھوٹی سی سڑک پر جہاں دو افراد کا ایک ساتھ گزر بھی مشکل ہو۔۔۔ وہاں یہ فرشتے اپنی کمال مہارت سے سنگل۔۔ ڈبل ۔۔۔ تو کیا ٹرپل لائن میں بھی گاڑیاں پارک کروادیتے ہیں۔۔۔ اللہ میاں کے یہ فرشتے اس نیک کام کےلیے آپ سے صرف چالیس روپے اور تھوڑی دیر کےلیے گاڑی کی چابی لے لیتے ہیں۔۔۔ پھر کیا۔۔۔ آپ جلدی جلدی شاپنگ کرتے۔۔۔ اور گاڑی کی خیریت جاننے بھاگتےہیں۔۔۔

سوچئے اگر یہ پارکنگ مفت ہوتی توکیا پھر بھی آپ واپسی کی جلدی کرتے ؟؟؟ کچھ
لوگ خواہ مخواہ ان فرشتوں کے پیچھے شیطان بن کر پڑ گئے ہیں۔۔۔ مانا پارکنگ مافیا۔۔ غیر قانونی ہیں۔۔۔ جیب کے دشمن۔۔۔ سماج پر داغ ہیں۔۔۔ یہ مافیا چالیس روپے کا کھلم کھلا بھتہ لیتا ہے۔۔ یہ وہ مافیا ہے جس کا سرغننہ کون ہے کسی کو نہیں معلوم؟؟؟ کیا یہ خاموش پیٹی والے ہیں؟؟؟  کیاانہیں بھی ملزمان کی پشت پناہی حاصل ہے؟؟؟ تمام سوالات اپنی جگہ۔۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظرمیں یہ مافیابھی فرشتہ ہے جونظر ہی نہیں آتا۔۔۔۔

شکریہ
عاقب منیار

Monday 21 July 2014

پارکنگ فرشتے !!!

روشنیوں کے شہرکراچی میں جگہ جگہ ٹریفک جام۔۔۔ ہر طرف نو پارکنگ کے بورڈز۔۔۔ لیکن پھر بھی آسانی سے ہر کوئی اپنی سائیکل۔۔ موٹرسائیکل۔۔۔ چنگچی۔۔۔
رکشہ۔۔۔ گدھا گاڑی۔۔ اور گاڑی پارک کرہی لیتا ہے۔۔۔ رمضان میں رات کے وقت بازاروں کے باہرگاڑی پارک کرنا عذاب سے کم نہیں ہوتا۔۔ اوراس وقت اللہ میاں کو شدت سے یاد کیا جاتا ہے۔۔۔ گاڑی دھیرے دھیرے سے آگے بڑھتی اور نگاہیں پارکنگ کی جگہ تلاش کرنے میں لگ جاتی ہے۔۔۔ ایسے میں امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔۔۔ لوگ انہیں پارکنگ مافیا اور میں پارکنگ فرشتہ کہتا ہوں۔۔۔

ہاتھ میں دونمبرپرچیاں تھامے اوراشارے کرتے یہ فرشتے دور سے ہی اپنے گاہگ کو بھانپ لیتے ہیں۔۔۔ چھوٹی سی سڑک پر جہاں دو افراد کا ایک ساتھ گزر بھی مشکل ہو۔۔۔ وہاں یہ فرشتے اپنی کمال مہارت سے سنگل۔۔ ڈبل ۔۔۔ تو کیا ٹرپل لائن میں بھی گاڑیاں پارک کروادیتے ہیں۔۔۔ اللہ میاں کے یہ فرشتے اس نیک کام کےلیے آپ سے صرف چالیس روپے اور تھوڑی دیر کےلیے گاڑی کی چابی لے لیتے ہیں۔۔۔ پھر کیا۔۔۔ آپ جلدی جلدی شاپنگ کرتے۔۔۔ اور گاڑی کی خیریت جاننے بھاگتےہیں۔۔۔
سوچئے اگر یہ پارکنگ مفت ہوتی توکیا پھر بھی آپ واپسی کی جلدی کرتے ؟؟؟ کچھ
لوگ خواہ مخواہ ان فرشتوں کے پیچھے شیطان بن کر پڑ گئے ہیں۔۔۔ مانا پارکنگ مافیا۔۔ غیر قانونی ہیں۔۔۔ جیب کے دشمن۔۔۔ سماج پر داغ ہیں۔۔۔ یہ مافیا چالیس روپے کا کھلم کھلا بھتہ لیتا ہے۔۔ یہ وہ مافیا ہے جس کا سرغننہ کون ہے کسی کو نہیں معلوم؟؟؟ کیا یہ خاموش پیٹی والے ہیں؟؟؟  کیاانہیں بھی ملزمان کی پشت پناہی حاصل ہے؟؟؟ تمام سوالات اپنی جگہ۔۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظرمیں یہ مافیابھی فرشتہ ہے جونظر ہی نہیں آتا۔۔۔۔

شکریہ
عاقب منیار

Thursday 10 July 2014

جھوٹےلوگ۔۔۔

پاکستانیوں کی تقدیر بڑی عجیب ہے۔۔ پِستا وہی ہے جس کا پسینہ نکلتا ہے۔۔۔ پیسہ اس کو ملتا ہے جو دوسروں کا پسینا نکالتا ہے۔۔۔ پاکستان ۔۔۔ پیسہ ۔۔۔ پسینا۔۔ یہی 3 حرف پاکستان کے ہر گلی کونے میں بھٹکتے رہتے ہیں۔۔۔


 لوگ کہتے ہیں پاکستان میں جمہوریت نے غربت۔۔ جہالت کے سوا کچھ نہیں دیا۔۔۔ جھوٹ بولتے ہیں۔۔ تاریخ میں پہلی بار عیش و عشرت کی مہنگی اور بنیادی ضروریات کی اشیاء ایک ہی دام پر بک رہی ہیں۔۔۔ سموسہ 10 روپے۔۔ روٹی 10 روپے،،، آلو 60 روپے۔۔  چاکلیٹ 60 روپے،،، کھلا دودھ 75 روپے۔۔ چائے کیلئے دودھ 75 روپے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ پاکستان کا ہر شہری سیلز مین بنا پھر رہا ہے۔۔۔ کوئی خرید رہا ہے۔۔ تو کوئی فروخت کررہا ہے۔۔۔ آپکو کیا چاہیے ؟؟؟
لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں جب ہر چیز قانون کے تحت بیچی اور خریدی جاتی ہے۔۔۔ تو سب سے پہلے قانون دانوں کو خرید لیا جاتا ہے۔۔ ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ گلی کا سیلز مین (ٹھیلے والا) کسی چیز کے وہی دام کیوں وصول کرتا ہے جو ملٹی نیشنل کمپنیاں اچھی پیکنگ کے ساتھ فروخت کرتی ہیں۔۔۔ کیا قانون بنانے والے پہلے ہی بک جاتے ہیں ؟َ؟؟ کسی کمپنی والے کو آج تک مہنگائی کا رونا روتے نہیں دیکھا۔۔۔ غریب ہی اس میں پستا ہے۔۔

لوگ تو یہ کہتے ہیں پاکستان جیسے ممالک میں تو مذہب بھی بیچا جاتا ہے۔۔۔ کرسی۔۔۔ غربت۔۔۔ علم۔۔۔ عزت۔۔۔ سب کے سب بک گئے تو پاکستانیوں نے مذہب کو بھی فروخت کرنا شروع کردیا۔۔۔ ہم کیسے مسلمان ہیں ۔۔ جنھوں نے اپنے مفادات کےلیے کبھی دین بیچا ۔۔۔ کبھی نماز۔۔ کبھی روزہ۔۔۔ کبھی مذہب کو اپنے پیٹ پالنے کے لئے بیچا۔۔۔کبھی دوسرے کا پیٹ کاٹنے کے لئے۔۔

لوگ تو لین دین سے متعلق ابوبکر کے قول کی تعریف کرتے ہیں۔۔۔ اور پھر دوسروں کو چونا بھی لگادیتے ہیں۔۔۔ کہتے ہیں ابوبکر خریدو فروخت میں ایک ہی پیمائش کا درس دیتے تھے۔۔۔ لیکن یہ کیسا ملک ہے جہاں لوگوں نے رمضان کو بھی نہیں چھوڑا۔۔۔ کراچی میں رمضان کا مہینہ بازاروں میں یا پھر ٹی وی پر ہی دکھتا ہے۔۔۔ سحری سے لیکر افطاری تک ۔۔۔ فجر سے لیکر تراویح تک، ہر چیز کے ہزاروں خریدار ہیں۔۔۔ رمضانی مینڈکیں بھی اسکرینوں پر آگئے ہیں۔۔۔عنقریب روزہ بھی مارکیٹوں میں رعایتی قیمتوں پر دستیاب ہوگا۔۔۔


بدلنا ہے تو مئے بدلو، نظامِ مئے کشی بدلو۔۔۔ فقط ساغر ومینا بدل جانے سے کیا ہوگا!۔۔ لوگ کہتے ہیں پاکستان ہے۔۔ سب چلتا ہے۔۔۔ لوگ اکثر جھوٹ بولتے ہیں اور فنکار دکاندار اپنا کام دکھاتے رہتے ہیں۔۔ لوگ کہتے ہیں دن بدلتے ہیں تو ہر عیب  ہنر بن جاتا ہے۔۔۔ لیکن عیب عیب ہی رہتا ہے۔۔ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور یونہی بولتے رہتے ہیں۔۔۔

عاقب منیار