Thursday 22 January 2015

بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے !!




بتا کیا پوچھتا ہے وہ، کتابوں میں ملوں گا میں
کئے ہیں ماں سے جو میں نے، کہ وعدوں میں ملوں گا میں

میں آنے والا کل ہوں وہ مجھے کیوں آج مارے گا
یہ اس کا وہم ہوگا کہ وہ ایسے خواب مارے گا

تمھارا خون ہوں ناں، اس لیے اچھا لڑا ہوں میں
بتا آیا ہوں دشمن کو کہ اس سے تو بڑا ہوں میں

میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے، جو بچوں سے لڑتا ہے

وہ جب آتے ہوئے مجھ کو گلے تم نے لگایا تھا
امان اللہ کہاں! مجھ کو میرا بیٹا بلایا تھا

خدا کے امن کی راہ میں کہاں سے آگیا تھا وہ
جہاں تم چومتی تھی ماں، وہاں تک آگیا تھا وہ

میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے

مجھے جانا پڑا ہے پر میرا بھائی کرے گا اب
میں جتنا نہ پڑھا وہ سب میرا بھائی پڑھے گا اب

ابھی بابا بھی باقی ہیں، کہاں تک جاسکو گے تم
ابھی وعدہ رہا تم سے، یہاں نہ آسکو گے تم

میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے