Saturday 29 June 2013

کبھی سن بھی ۔۔۔

کبھی سن بھی ۔۔۔

پرانے مصر میں لوگوں کے عجیب شوق تھے۔۔۔ وہ اپنے رشتہ داروں کے مرنے پر گیت گانے والی عورتوں کو بلاتے جو آبدیدہ گیت گاکر محفل کو رلاتی۔۔۔ ان میں بھی آسیہ نام کی خاتون شامل تھی۔۔  لوگ اسے بھاری رقوم دے کر موت والے گھر لے جاتے، وہ وہاں غم کے گیت گا کر محفل کو آبدیدہ کر دیتی۔ ایک روز لوگوں نے سنا کہ اُس کے اپنے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے۔۔۔ لوگ یہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ عورت کون سے الفاظ استعمال کرتی ہے ۔۔ لوگ آسیہ کے گھرگئے تو وہ  کہیں نظر نہ آئی۔ تھوڑی تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ آسیہ گھر کے کونے میں غم سے نڈھال چپ چاپ بیٹھی رو رہی ہے۔۔۔ وہ آگے پیچھے گزرنے والوں کو نم آنکھوں سے دیکھے جارہی تھی۔۔۔ یہ ہوتا ہے کسی اپنے کے بچھڑنے کا غم ۔۔۔

فرعون کی بیوی کا نام بھی آسیہ تھا۔۔۔ جس نے دریا نیل میں ٹوکری میں بہہ کر محل پہنچنے والے بچے موسیٰ کو اٹھایا اور چپ چاپ پالنا شروع کردیا۔۔۔ آسیہ نے موسیٰ کو پالنے کے لیے جان دے دی۔۔۔ فرعون نے اسکے سینے پر پتھر رکھا اورآسیہ کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ آسیہ مرگئی لیکن موسٰی زندہ رہا اور فرعون اسکی مقبولیت سے دل میں کانپتا ضرور رہا۔ اس آسیہ کا شمار دینی کتابوں میں بھی کئی حوالوں سے ملتا ہے۔

کراچی میں بھی ایک آسیہ آباد ہے۔ شبیر عثمانی کی بیوی پچاس سالہ آسیہ کو بھی اسی طرح کا غم کھائے جارہا ہے۔ اسکا جوان بیٹا نعمان ناظم آباد میں نامعلوم گولی سے ہلاک ہوا۔۔ آسیہ اس  وقت کراچی کے پسماندہ علاقے اسماعیل گوٹھ میں رہائش پزیرہے۔۔۔ لیکن اسکے جسم میں موجود دل مردہ بچے کی طرح کب کا خاموش ہوچکا تھا۔۔۔ یہ باؤلی ماں زندگی کو کسی نہ کسی طرح جھولا جھلائے جارہی ہے۔ مکان میں موجود سناٹا اسکی زندگی کے قصے سنارہا ہے۔ یہ باؤلی ماں یادوں کے پنکھوں سے اپنے آنسوؤں کو سکھانے کی کوشش میں لگی ہے۔

 آسیہ نے دس سال پہلے شوہر کی وفات کے بعد اسماعیل گوٹھ کے واحد پرائمری اسکول میں پڑھانا شروع کیا۔۔۔ امیر شہر کے غریب مکینوں کا حال بھی اسکے ٹوٹے پھوٹے خواب کی طرح تھا۔۔۔ ٹھیک آٹھ سال بعد اسکا  بیٹا نعمان بھی کراچی کی سڑک پر گولی کا نشانہ بنا اور موت کی وادی میں چلاگیا۔ آسیہ بہرے لوگوں کو اپنی داستان سنانا چاہتی تھی لیکن بے زباں شہر میں وە کیسے حرف پہن کر نکلے۔۔۔ اور کون اسکی داستان سنے ؟

آسیہ جیسی کئی باؤلی مائیں اب شہراقتدار کو شہر خموشاں سمجھنے لگی ہیں۔۔۔ جہاں انکے بیٹوں ، شوہروں کی لاشیں دفن ہیں۔۔ مستقبل کے سنہری خواب دفن ہیں۔۔ شہر خموشاں میں قبروں پر ماضی کے چند پھول چڑھائے جاتے ہیں۔۔۔  اس شہر اقتدار میں حکمران بھی گورکن ہیں جن کا دھندا قبروں سے چلتا ہے۔۔۔ جتنی قبریں اتنا منافع۔۔۔  یہ قبرستان ہے جہاں موت کے سائے میں زندگی چلتی ہے۔۔۔ کراچی جیسے شہر میں اب تک اندازہ نہیں کہ قبروں میں لوگوں کو زندہ دفن کیا گیا یا پھر انہیں موت کی نیند نے سلایا ہے۔۔۔

عمر رسیدہ آسیہ کو اب معلوم ہی نہیں کہ اسکا ہمدرد کون ہے۔۔ وہ مصر کی خواتین کی طرح آبدیدہ الفاظ نہیں بیچ سکتی۔۔۔ نہ ہی کسی شاعر کی طرح خواب لے لو ۔۔ خواب لے لو کی صدائیں لگاسکتی ہے۔۔۔ وقت کا فرعون اس کی بھی جان لینے پر تلا ہوا ہے۔ اسکی حکام بالا سے کوئی اپیل بھی نہیں۔۔۔ بس وہ  اب حضرت آسیہ کی طرح پرودگار سے یہی دعا کرتی ہے کہ  پروردگار۔۔۔ بہشت میں اپنے جوار میں ایک گھر بنانا اور فرعون اور اس کے اعمال سے نجات دینا اور اس ظالم قوم سے بچانا۔ حضرت آسیہ کے بارے میں تاریخ بھری پڑی ہے۔ فرعون نے سینہ پر پتھر رکھ کر انہیں ماردیا تھا۔ لیکن کراچی کے شہر خموشاں میں باون سالہ آسیہ اب بھی زندہ ہے۔ جسے جیتے جی خواب اور یادوں کے سمندر میں دفن کردیا گیا ہے۔  حساب کتاب کرنے والا بھی کوئی نہیں۔


Aqib Maniar

Sunday 9 June 2013

بندروں کی زمین !!


بندروں کی زمین !

پنجاب کی تحصیل پنڈ دادخان کے چھوٹے سے گاؤں میں یونس سو بندروں اور ملازم کے ہمراہ آیا۔۔ اس نے ملازم کو گاؤں سے کچھ فاصلے پر بٹھایا اور ہدایت کی کہ جو بھی بندر خریدنے آئے وہ اسے فی بندر سو روپے میں فروخت کرے۔ یونس نے ملازم کو وہی چھوڑا اور خود گاؤں میں چلا گیا ۔۔۔ یونس نے اعلان کرایا کہ وہ دو سو روپے فی بندرخریدنے کو تیار ہے۔۔۔ جسکے پاس بندر ہے وہ اسے فروخت کردے۔۔۔ دیہاتیوں نے سوچا کہ گاؤں کے باہر بیٹھے شخص سے سو روپے میں بندر خریدتے ہیں اور یونس کو دوسوروپے میں فروخت کردیتے ہیں۔۔۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ بندرخریدےاور یونس کو فروخت کرکے سو سو روپے کا منافع کمایا۔۔۔ یونس نے جاتے ہوئے گاؤں والوں سے  دعا کرنے کو کہا کہ اگر شہر میں اسکے بندر پانچ سو روپے میں فروخت ہوئے تووہ واپس آکر مزید بندر خریدے گا۔۔۔ یونس پندرہ دن کے وقفے سے پھر آیا۔۔۔ گاؤں کے باہر بیٹھے شخص کو ہدایت کی کہ اب وہ اب ایک بندر چار سو روپے میں فروخت کرے۔۔۔ یونس پھر گاؤں میں گیا اور اعلان کرایا کہ وہ اب آٹھ سو روپے میں بندر خریدنے کو تیار ہے۔۔۔ اس نے سو بندر خریدے اور کہا کہ وہ اگلی بار آئے گا تو تین ہزار روپے میں بندر خریدے گا۔۔ معاملہ چلتا رہا اور بندروں کی قیمتیں بڑھتی رہیں۔۔۔

کہتے ہیں دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ہوتی۔۔۔ ایک دن یونس نے گاؤں والوں سے  کہا کہ وہ اگلی بار سولہ ہزار روپے میں بندر خریدے گا۔۔۔ اس نے گاؤں کے باہر بیٹھے شخص سے کہا کہ بندر کی قیمتیں دس ہزار روپے تک بڑھادے۔۔۔ ملازم نے ایسا ہی کیا۔۔ گاؤں والے سیدھے سادھے تھے۔۔ کسی نے اپنی بیٹی کا جہیز بیچا۔۔۔ کسی نے کھیت تو کسی نے مکان فروخت کرکے بندر خریدنا شروع کیے۔۔۔ گاؤں والے انتظار کرنے لگے کہ کب یونس آئے اور ان سے سولہ ہزار روپے میں بندر خریدے۔۔۔ لیکن فراڈیا یونس نہ آیا۔۔ وہ اپنے ساتھی کے ہمراہ لوگوں کو بے وقوف بناکر دوسرے گاؤں جاچکا تھا۔۔۔ اب ہر دیہاتی مقروض تھا۔۔۔ گاؤں میں انسان کم اور بندر زیادہ تھے۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ انسان نہیں بلکہ بندروں کی زمین ہے۔۔

پاکستان میں یوں تو ہر گلی محلے میں بندر کو جینٹل مین بناکر کبھی بکری کے ساتھ تو کبھی بھالو کے ساتھ کھڑا کرکے کرتب دکھائے جاتے ہیں۔۔۔ فراڈ کرکے دوسروں کو  بے وقوف بنانا۔۔۔ بندر کا ناچ نچاکر عوام سے پیسے لوٹ کر فرار ہوجانا اب پاکستان میں معمول بنتا جارہا ہے۔ صرف ایک بوگس فنانشل کمپنی کھول لیں۔۔۔ دس ہزار سے دو لاکھ روپے میں لوگوں کو ماہانہ پانچ سو سے پانچ ہزار روپے منافع کا لالچ دیں۔۔۔ اور کبھی بھی پیسہ واپس نکالنے کی گارنٹی دے دیں۔۔۔ پھر کیا،،، کون بکرا ذبح ہونے نہیں آئے گا۔۔۔ ایک سال کے اندر ہی کمپنی بند کریں۔۔ اور وہاں سے فرار ہوجائیں۔۔۔ ایسے کتنے ہی فنانشل ادارے ہیں۔۔۔ جو اس طرح کے کام کررہے ہیں۔۔ اور لوگ بھی کتنے سادہ ہیں جو بغیر پوچھ گچھ چھان بین کے زندگی بھر کی کمائی انہیں سپرد کردیتے ہیں۔۔۔ پولیس بیشتر اوقات ایسے فراڈیے کی کھوج میں ناکام رہتی ہے۔۔۔ لوٹنے والے اور لٹنے والے دونوں افراد کا تعلق زیادہ تر مڈل کلاس سے ہی ہوتا ہے۔۔

پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک فراڈیا پڑا ہے۔۔۔ کوئی انٹرنیٹ کے ذریعے رقوم چراتا تو کوئی میجک یا سپر سم موبائل میں لگاکر دوسروں کا بیلنس اپنے موبائل میں حاصل کرلیتا ہے۔۔۔ ایسے فراڈیے بھی ہیں جو غریبوں کو مفت زمین دینے کا جھانسہ دیتے اور پھر انہیں فائلوں کے اندر دفن کردیتے ہیں۔۔۔ غریبوں کے نام پر پیسہ اکھٹا کرنا ہے تو این جی او کھول لیں۔۔۔ دو بھوکے ننگے بچوں کی تصویر کھینچے ۔۔۔ ہزار دو ہزار روپے کی این جی او رجسٹرڈ کروائیں۔۔۔ کسی پوش علاقے میں کچھ دنوں کےلیے ایک کمرہ پر مشتمل  دفتر کھولیں۔۔۔ اور چیخ چیخ کر بھیک مانگے۔۔ ان بچوں کو تن پر کپڑا ملے نہ ملے ایسے فراڈیوں کو وائٹ لیبل اور پیسہ ضرور مل جاتا ہے۔۔۔ پاکستان میں فراڈ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ این جی اوز کی کارکردگی کی مانیٹرنگ میں بھی کوئی اصول نہیں اپنائے جاتے۔ جینٹل مین پاکستانیوں کو بندر کی طرح رسیوں پر اچھالا جاتا ہے۔

اب فراڈ کہاں نہیں۔۔۔ کیا صرف پیسوں کے لین دین پر ہونے والی غیر قانونی حرکات کو ہی فراڈ کہا جائے۔۔۔ ؟ گارڈن میں اپنی محبوبہ کے انتظار میں بیٹھا عاشق سلیم اپنی مبینہ انارکلی کو دوسرے کے ساتھ پا کر دل میں کیا سوچتا ہوگا ؟ کراچی کی ڈبلیو گیارہ میں منجن سے بھرا بیگ تھام کر لوگوں سے پانچ روپے کی ڈبی کے پچاس روپے لینے والا کون ہوگا ؟ مزاروں میں پیر فقیر کے نام پر پھول اور چپلوں کی دکانیں چمکانے والا کون ہوگا ؟  آپ کئی دن بعد آلو ٹماٹر خریدنے بازار جائیں اور کوئی شاتر ٹھیلے والا آپکو بیس روپے کلو والا ٹماٹر چالیس روپے میں چپکادے تو کیا آپ خوش ہونگے ؟ ہوم ورک ڈائریوں میں والدین کے بوگس دستخط کرنے والے طلباء کو کیاکہیں گے۔۔۔ امتحانی مراکز میں ایک سوال کا ایک جواب تمام طلباء میں گھومتا رہے۔۔ اسے کیا کہیں گے۔۔ جناب فراڈ کرنا تو ہم پاکستانیوں کی نشانی ہے،،، آخر یہ بھی تو ایک فن ہے۔ کیا پلاسٹک منی میں گھپلے یا پھر جعلی سازی کرنے والے ہی فراڈیے ہیں؟
         
پاکستان میں ایسا مانا جاتا ہے کہ آپ کے سر پر جتنے کم بال ہیں آپ اتنے ہی امیر اور آپکا  بینک بیلنس اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔۔۔ میری نظر میں یہ بھی کسی فراڈ سے کم نہیں۔۔۔ یعنی اب بعض لوگ خاص جماعت کے سربراہ کو امیر ترین اور دیگر جماعتوں کے سیاستدانوں کو غریب مان بیٹھیں ؟  پاکستانیوں کو چھوڑیں عالمی سطح پر بات کریں۔۔۔ لینس پاؤلنگ نے کہا تھا کینسر سے متعلق ہونے والی متعدد تحقیق صرف ایک فراڈ ہے۔۔۔ جو بس اپنے اداروں کی عزت بچارہی ہیں۔۔ فراڈ کو ناانصافی کا وزیر تصور کیا جاتا ہے۔۔۔ ایلان گرینسپان نے کہا تھا کہ اگر آپکو کسی چیز کی معلومات نہیں تو کوئی دوسرا آپکو آسانی سے گمراہ کرکے لوٹ سکتا ہے۔۔۔ فیشن اسٹائل کیا دھوکا نہیں ؟ ایک کپڑے کی چھیڑ پھاڑ کرکے دوسرا بنانا اور پھر اسے پرانا کہہ دینا ؟ میرے خیال میں سب جھوٹ ہے،،، دھوکا ہے۔۔۔ اور سب سے بڑا دھوکا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ مانتا ہوں انسان کبھی بندر نہیں تھا لیکن دنیا بندروں کی زمین ہے اور یہ بندر صرف ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں اپنی عقل نہیں لگاتے۔

Aqib Maniar

Wednesday 5 June 2013

پاکستانی معیشت کا اللہ ہی حافظ!!!

اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہو جہاں سیاستدانوں کے پاس معاشی معلومات ہوں نہ ہی عوام کو دو وقت کی روٹی میسر ہو۔۔۔ چارٹر طیاروں میں بیرون ملک جاکر بھیک مانگنے والے بھی صرف جی ڈی پی، غربت اور افراط زر کی اصطلاحات جانتے ہوں۔   ملک کی سالانہ آمدن انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہو اور حکمران عوام کو لوڈشیڈنگ کے خاتمے کےلیے فنڈز کی عدم دستیابی کی لالی پاپ دیتے ہوں۔ ایسے ملک کی معاشی حالت کیسے بہتر ہو جہاں سرکاری اعدادو شمار غربت میں کمی بتلائیں۔۔۔ تنخواہوں میں اضافہ بتائیں اور مہنگائی کی شرح میں ہیر پھیر کرجائیں۔۔ ایسے دیس کے مکینوں کا واقعی اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔


مشہور معیشت دان پول ریان نے کہا تھا کہ ٹیکس کی شرح اگر بڑھائی جاتی رہے تو ملک میں معاشی ترقی رک جاتی ہے۔ لیکن کون سمجھائے ایسے سیاستدانوں کو جنھوں نے قومی خزانہ کو بھرنے کےلیے سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، رئیل پراپرٹی ٹیکس سب کو تین گنا بڑھادیا اور پھر ستم ظریفی دیکھئے ہر چیز کی قیمتیں بڑھاکر غریب دوستی کا نعرہ لگایا۔۔۔


 پچھلی حکومتوں میں سیاسی تنازعات اور سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی نے ملک کی معیشت کو بری طرح متاثر کیے رکھا۔۔۔ دنیا کا بہترین آبپاشی نظام پاکستان  میں موجود ہونے کے باوجود اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب ہو یا پھر پانی کی کٹوتی کا معاملہ،،، سب سے پہلے نزلہ زراعت کے شعبہ پر گرتا۔۔۔ تیس سال کی جدوجہد کے بعد ٹیکسٹائل صنعتوں نے پاؤں پھیلانا شروع کیے تواقتدار میں بیٹھے نیم حکیموں نے  ٹانگ ہی اکھاڑ دی۔۔۔۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد مزدوروں کو ایک ماہ میں بے روزگار کردیا گیا۔۔۔ اور پھر بہترین معاشی مستقبل کی امید لگائی گئی۔۔۔۔


ملک میں معاشی صورتحال اس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ مجموعی افرادی قوت کا پینتالیس فیصد حصہ تصور کیے جانے والے کاشتکار آج پانی کے حصول کےلیے احتجاج کررہے ہیں۔۔۔  ہاں یہ وہی کاشتکار ہیں جنھیں پہلے سیلاب ، پھر بارش اور اب نہروں میں پانی کی قلت نے تباہ کردیا ہے۔۔۔ بھارت کو تجارت کےلیے پسندیدہ ملک قرار دینے کے بعد بدین میں ٹماٹر کی 50 فیصد فصل پڑے پڑے خراب ہوگئی۔۔۔ پٹواری سے مڈل مین تک ہر کوئی بیچ کی خریداری اور فصل کی ترسیل تک  کئی کئی گھپلے کرتا ہے۔۔ ایسے زرعی ملک کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔۔غیر سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں  یوریا کی 494 روپے کی بوری کسان ایک ہزار 250 روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔۔۔ بھارت کے مقابل پاکستانی کاشتکار فصل پر آنے والی کل لاگت پر 345 ارب روپے سالانہ اضافی ادا کرتے ہیں۔ ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ آخر میں حکمران رمضان میں پرائس لسٹیں دکانوں پر پہنچاکر اپنا فرض ادا کردیتے ہیں۔۔


ٹیکسٹائل، کان کنی اور آئی ٹی سے وابستہ صنعتیں بھی غلط معاشی پالیسیوں سے شدید متاثر ہوئیں۔۔۔  چوبیس فیصد حصہ تصور کی جانے والے اس سیکٹر کو بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ نے تباہ کردیا ہے۔ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ ڈیڑھ لاکھ مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔۔۔ صنعتی مالکان کو امید ہے کہ ٹیکسٹائل صنعتیں کبھی بند نہیں ہونگی کیونکہ اب بھی اسکا  تجارتی حجم ساڑھے بارہ ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔  ٹیکسٹائل مصنوعات سب سے زیادہ چین کو برآمد کی جاتی ہیں۔ اور سستے داموں چین سے درآمد ہونے والی اشیاء مقامی مارکیٹوں کو کھاجاتی ہیں۔ پاکستان کی سیاحتی صنعت کو توجیسے نظر لگ گئی ہے۔۔۔ ملک میں کئی سال سے دہشتگردی کے خاتمے کی باتیں کی جارہی ہیں۔۔۔ نئی آنے والی حکومت بھی دہشتگردی ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔۔۔ لیکن معیشت کی بہتری کے بغیر یہ صرف ایک فسانہ ہی ہوگا۔۔۔ جیمز فورسٹل نے ایک بار کہا تھا معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور بین الاقوامی تجارت سے ہی دنیا میں دیرپا امن قائم ہوسکتا ہے۔ لیکن اس میں ذاتی انا نہیں ہونی چاہیے۔


ایسا مانا جاتا ہے کہ صومالیہ میں بحری قزاق عیاشیوں کی زندگی گزارتے ہیں۔۔ نوجوان لڑکے اسے پسند کرتے اور اچھے برے کی تمیز کے بغیر اس زندگی کو اپناتے ہیں۔۔ معیشت دان اس کی بڑی وجہ صومالیہ میں بہتر اقتصادی مواقع کا نہ ہونا بتاتے ہیں۔۔۔ لیکن ٹھہریے۔۔۔ پاکستان میں اب بھی صومالیہ سے کئی گنا بہتر حالات ہیں۔۔۔ ٹیکس میں چھوٹ اور چھوٹے کاروباری افراد کو بہتر سہولیات فراہم کرکے ملکی معیشت کومضبوط کیا جاسکتا ہے۔

 بلدیاتی نظام کا بھی انtextils  دنوں خوب شور ہورہا ہے۔۔۔ امید ہے کوئی نیا بہتر نظام سامنے آئے گا کیونکہ میونسپل نیٹ ورک ملک میں نئے اقتصادی مواقع فراہم کرتی ہے۔۔۔ ہمیں ان مواقع کو خوش آمدید کہنا چاہیے نہ کہ انہیں ہمیشہ کےلیے بند کردیں۔ گوادر پورٹ کا انتظام چین کو دیے جانے اور پھر ایران گیس پائپ لائن منصوبہ سے پاکستانی معیشت کچھ بہتر ہونے کی امید ہے۔ ایشیائی ممالک سے تجارت بڑھاکر پاکستانی کو تجارتی خساروں سے بھی نکالا جاسکتا ہے۔ امید ہے نوازشریف کی حکومت ملک کو معاشی استحکام بخشے گی ورنہ اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

Aqib Maniar

Saturday 1 June 2013

اللہ دتہ بھکاری تھا اور حکمران ؟

بڑے اور چھوٹے بھکاری۔۔۔

اللہ دتہ ایک پیشہ ور بھکاری تھا۔۔ جو برنس روڈ کی مشہور محمدی مسجد میں تقریبا روزانہ ہی بھیک مانگنے پہنچ جاتا تھا۔۔۔ پولیس نے ایک دن اسے بے ہوشی کی حالت میں سڑک کنارے پایا اور پھر معلوم ہوا کہ اللہ کے نام پر بھیک مانگنے والا اللہ کو پیارا ہوچکا ہے۔۔۔ پولیس اس وقت حیران رہ گئی جب اسے معلوم ہوا کہ اللہ دتہ نے اللہ کے نام پر خوب مال اکھٹا کیا ہے۔۔ اس نے بینک اکاؤنٹ  کے ساتھ ساتھ سیونگ سرٹیفکیٹس بھی لیے ہوئے ہیں۔۔۔ اور اسکے اثاثوں کی مالیت دس لاکھ روپے کے اوپر ہے۔۔۔


پاکستان میں ایسا مانا جاتا ہے کہ یہاں بچوں کو اغواء کیا جاتا اور  انکے ہاتھ پاؤں کاٹ کر بھیک مانگنے کے  دھندے میں لگادیا جاتا ہے۔۔۔  اللہ دتہ کی طرح بھکاری گندے میلے کپڑے پہنے چیخ چیخ کر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن ایسے بھکاریوں کا کیا کیا جائے جو بہترین سوٹ پہن کر خصوصی طیاروں کے ذریعے بیرون ملک جاتے اور ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگتے رہے ہوں۔۔۔


غربت پر کام کرنے والی این جی اوز کے مطابق پاکستان میں ڈھائی  کروڑ سے زیادہ  بھکاری آباد ہیں۔۔۔ جورمضان، عید، محرم اور شب برات کو ایک شہر سے دوسرے شہر کا رخ کرتے۔۔ پیسہ اکھٹا کرتے اور پھر اپنے علاقوں کو لوٹ جاتے ہیں۔۔۔ ان میں سے کوئی ایک زبان، کوئی دو تو کوئی تین، تین زبانیں بولنے کا ماہر ہوتا ہے۔۔۔ اللہ دتہ بھی فارسی اور عربی جانتا تھا۔۔۔ بڑے بھکاری اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی جانتے ہیں۔۔۔


مرکزی بینک کے اعدادو شمار کے مطابق حکومت پاکستان پر ملکی و غیر ملکی قرضوں اور مالی ذمہ داریوں کا بوجھ 15 ہزار 148 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔۔۔ آخر یہ کون ہے جس نے عوام کی اجازت کے بغیر بھاری بھرکم قرضے لیے۔۔۔ عوام کا خون نچوڑا۔۔۔ کئی کئی عذاب دیے۔۔۔ بھوک دی۔۔۔ غربت دی۔۔ خودکشیاں دی۔۔۔ ؟ غریب مزدور تو دن کے بارہ گھنٹہ کام کرکے گھر لوٹا تھا۔۔۔ ملازمین سخت ذہنی اذیت کے بعد سکون کےلیے گھر پہنچے تھے۔۔۔ لیکن کس نے ان ہر ایک شخص کو تراسی ہزار روپے کا مقروض کردیا۔۔۔ بھیک کس نے کب اور کیوں مانگی تھی ؟


اصل بھکاری ہیں کون ؟ اللہ دتہ یا پھر چھیاسٹھ سالہ دور میں گزرنے والے وہ تمام سیاستدان جنھوں نے مزدور غریب طبقہ کو نچوڑا۔۔۔ اور پھر بیرون ملک سے امداد مانگی۔۔۔ وطن عزیز کے دفاع کےلیے عوام کو گھاس کھلانے والے سیاستدان کہاں گئے؟ آخر غریب کو ملا کیا ؟ دو وقت کی روٹی کےلیے دربدر کی ٹھوکریں۔۔۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی کلرکوں کی زندگی۔۔۔ جس ملک میں اللہ دتہ جیسا بھکاری دس لاکھ روپےکا مالک بن جائے اور کالج کا پروفیسر غربت سے مرجائے وہاں کے سیاستدانوں کو کیا کہا جائے ؟

پیشہ ور بھکاری کبھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ وہ جو کام کررہے ہیں انتہائی غلط ہے۔۔۔ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کےلیے وہ طرح طرح کے فضول دلائل دیتے ہیں۔۔۔ بھکاری کہتے ہیں کہ دنیا  میں ہر کوئی کسی نہ کسی سے مانگ رہا ہوتا ہے۔۔۔ کوئی اللہ کو پکارتا ہے،،، کوئی بھگوان سے تو کوئی کسی اور خدا سے۔۔ بھکاری چھوٹے پیمانے پر مانگتے ہیں اور بڑے لوگ بڑے پیمانے پر ۔۔ فرق صرف دونوں کی مارکیٹوں کا الگ ہونا ہے۔۔ لیکن دونوں اللہ دتہ جیسے افراد ہی ہیں۔


دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اور جاپان کھنڈر بنا دیے گئے۔ قدرتی آفت نے حال ہی میں جاپان کو پھر زمین سے اکھاڑ دیا۔۔۔ لیکن دو سال بعد وہ پھر کھڑا ہوگیا۔۔۔ بھیک نہیں مانگی۔۔۔ دوہزار ایک کے بعد بم حملوں اور دھماکوں میں کھنڈر بن جانے والے افغانستان جیسے ملک  نے بھی کوشکول نہیں اٹھایا۔۔۔ خطے میں یہ ظرف شاید اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کو ہی حاصل ہوا ہے کہ وہ ہر وقت کشکول اٹھائے پھرتے ہیں۔ کشکول ٹوٹے نہ ٹوٹے جھوٹے نعروں اور مفاد پرستی سے لوگوں کے دل ضرور ٹوٹتے ہیں۔


اللہ دتہ نے بھیگ مانگ مانگ کر دس لاکھ روپے اکھٹے کیے۔۔۔ لیکن اسکی لاش کئی دن تک اسکے ورثاء کا انتظار کرتی رہی۔۔۔ شاید قبر کا خوف بھولنے والوں کے ساتھ یہی انجام ہوتا ہو۔ وہ نہ ہی  دس لاکھ روپے  خرچ کرسکا اور نہ ہی کسی اصل مستحق کے کام لاسکا۔۔۔ اسکے محلہ میں بھی غربت کے بے رحم خنجرنے سفید پوش شخص کی شہہ رگ کاٹ دی۔۔۔ کیا خدا اللہ دتہ کو معاف کردے گا ؟ مان لیتے ہیں اللہ دتہ بڑا بھکاری تھا۔۔۔ پر حکمران کیا ہیں۔


Aqib Maniar