Wednesday 11 September 2013

بیٹیوں کے قاتل !!!

دور جہالت کی عجیب روایات تھیں۔۔۔ بچی پیدا ہوجائے تو باپ کی افسردہ نگاہیں، مرجھایا ہوا چہرہ اور بوجھل قدم ۔۔ اسکے غم کا ذکر کرتے۔۔۔ باپ ساتھیوں سے نظریں چراتا۔۔۔ منہ چھپائے پھرتا تھا۔۔۔ جب تھوڑی دیر بعد ہواس قابو میں آتے تو سوچتا ۔۔۔ کیوں نہ ماتھے کے کلنگ کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا جائے۔۔۔ قاتل بننے کے ڈر سے قدم ٹھہر بھی جاتے تھے۔۔۔ معاشرے سے چھپاکر اپنی بچی کو پالنے کی کوشش کرتا تو پانچ سال سے زیادہ گھر میں نہیں رکھ سکتا تھا۔۔۔

دور جہالت تھا۔۔۔ جہاں بیٹیاں ہونا بھی جرم تھا۔۔۔ صنف نازک اپنی ہی زندگی سے محروم تھی۔۔۔ یہ اسلام سے پہلے کا دور تھا۔۔۔ جہاں سنگ دلانہ رواج نے کبھی صنف نازک کو جینے نہیں دیا۔۔۔ موت کے کنویں میں لڑکیوں کو ابدی نیند سلادیا جاتا تھا۔۔ مگر کیا آج لڑکیوں کو زندگی جینے کا یا پھر زندہ رہنے کا حق مل گیا۔۔۔ ؟

کہتے ہیں بیٹیاں انمول تحفہ ہوتی ہیں۔۔۔ لیکن کیا کریں اس بدقسمت معاشرے کا جہاں قسمت کے مارے والدین نے چھ پریوں کو دس اور گیارہ ستمبر کے دن ڈائن کہہ کر اپنے سے دور کردیاہو۔۔۔ کچھ نے معاشی حالات کا رونا رویا تو کسی نے صنف نازک کوذلت سمجھ کر دریا راوی کے سپرد کردیا۔۔۔

بیٹی قدرت کی انمول نعمت ،،،، راحتِ جان ۔۔۔ احساس کا دوسرا نام ۔۔۔ لیکن لاہور کا باسی ان سب باتوں کو سمجھنے سے کوسوں دور۔۔۔ رکشہ ڈرائیور نے بیٹا نہ ہونے پر غصہ میں اپنی ڈیڑھ سالہ بچی زینب کو دریائے راوی میں پھینک کر قتل کردیا۔۔۔ پولیس نے ماں کی درخواست پر قاتل باپ کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا۔۔۔ ملزم کو شرم پھر بھی نہیں آئی۔

کراچی میں بھی ایسا ہی کچھ واقعہ ہوا۔۔۔ جہاں باپ نے تین بچیوں کو تو نہیں مارا لیکن انکا مستقبل ضرور قتل کردیا۔۔۔ کراچی کی تین معصوم بچیاں بے یارومددگار کھارادر کے بازار میں ایک راہگیر کو رُلتی ہوئی ملیں۔۔۔ پہلےتو وہ انہیں پولیس اسٹیشن لے آیا جب وہاں کسی نے دھیان نہ دیا تو ایدھی سینٹر چھوڑ گیا۔۔۔۔۔  ماں باپ سے دور ہونے والی بچیاں اس قدر سہمی ہوئی تھیں کہ یہ بھی نہ بتاسکیں کہ گھر سے کس کے ساتھ نکلی تھیں۔۔

شیخوپورہ میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔۔۔ جہاں باپ اپنی دو نومولود لڑکیوں کو سڑک کنارے چھوڑ کر فرار ہوگیا۔۔ پرانا شہر سے ملنے والی دو بچیاں چار دن پہلے ہی پیدا ہوئی ہیں۔۔۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال میں بچیوں کی زندگی بچالی گئی لیکن مستقبل اب بھی داؤ پر ہے۔

ادھرفیصل آباد میں بھی دو برس کی معصوم بچی وقت کی ستم ظریفی کا شکار ہو گئی۔۔
غیروں سے کیا گلہ جب اپنے ہی ساتھ چھوڑ دیں۔  خاتون کھرڑیوانوالہ کے قریب بس میں اپنی بچی چھوڑ گئی۔

مختلف شہروں میں بیٹیاں چھوڑ کر فرار ہونے والے والدین یہ بھول گئے ۔۔۔ کہ اب ان کےلیے جنت کا درازہ کون کھولے گا۔۔۔  بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں ۔۔۔ دل کے زخم مٹانے کو۔۔۔ آنگن میں اتری بوندوں کی طرح ہوتی ہیں۔۔۔ بیٹیاں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں۔۔۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دین اسلام کی سمجھ اور عمل کی توفیق عطا کرے۔۔۔


Aqib Maniar

No comments:

Post a Comment