Saturday 29 June 2013

کبھی سن بھی ۔۔۔

کبھی سن بھی ۔۔۔

پرانے مصر میں لوگوں کے عجیب شوق تھے۔۔۔ وہ اپنے رشتہ داروں کے مرنے پر گیت گانے والی عورتوں کو بلاتے جو آبدیدہ گیت گاکر محفل کو رلاتی۔۔۔ ان میں بھی آسیہ نام کی خاتون شامل تھی۔۔  لوگ اسے بھاری رقوم دے کر موت والے گھر لے جاتے، وہ وہاں غم کے گیت گا کر محفل کو آبدیدہ کر دیتی۔ ایک روز لوگوں نے سنا کہ اُس کے اپنے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے۔۔۔ لوگ یہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ عورت کون سے الفاظ استعمال کرتی ہے ۔۔ لوگ آسیہ کے گھرگئے تو وہ  کہیں نظر نہ آئی۔ تھوڑی تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ آسیہ گھر کے کونے میں غم سے نڈھال چپ چاپ بیٹھی رو رہی ہے۔۔۔ وہ آگے پیچھے گزرنے والوں کو نم آنکھوں سے دیکھے جارہی تھی۔۔۔ یہ ہوتا ہے کسی اپنے کے بچھڑنے کا غم ۔۔۔

فرعون کی بیوی کا نام بھی آسیہ تھا۔۔۔ جس نے دریا نیل میں ٹوکری میں بہہ کر محل پہنچنے والے بچے موسیٰ کو اٹھایا اور چپ چاپ پالنا شروع کردیا۔۔۔ آسیہ نے موسیٰ کو پالنے کے لیے جان دے دی۔۔۔ فرعون نے اسکے سینے پر پتھر رکھا اورآسیہ کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ آسیہ مرگئی لیکن موسٰی زندہ رہا اور فرعون اسکی مقبولیت سے دل میں کانپتا ضرور رہا۔ اس آسیہ کا شمار دینی کتابوں میں بھی کئی حوالوں سے ملتا ہے۔

کراچی میں بھی ایک آسیہ آباد ہے۔ شبیر عثمانی کی بیوی پچاس سالہ آسیہ کو بھی اسی طرح کا غم کھائے جارہا ہے۔ اسکا جوان بیٹا نعمان ناظم آباد میں نامعلوم گولی سے ہلاک ہوا۔۔ آسیہ اس  وقت کراچی کے پسماندہ علاقے اسماعیل گوٹھ میں رہائش پزیرہے۔۔۔ لیکن اسکے جسم میں موجود دل مردہ بچے کی طرح کب کا خاموش ہوچکا تھا۔۔۔ یہ باؤلی ماں زندگی کو کسی نہ کسی طرح جھولا جھلائے جارہی ہے۔ مکان میں موجود سناٹا اسکی زندگی کے قصے سنارہا ہے۔ یہ باؤلی ماں یادوں کے پنکھوں سے اپنے آنسوؤں کو سکھانے کی کوشش میں لگی ہے۔

 آسیہ نے دس سال پہلے شوہر کی وفات کے بعد اسماعیل گوٹھ کے واحد پرائمری اسکول میں پڑھانا شروع کیا۔۔۔ امیر شہر کے غریب مکینوں کا حال بھی اسکے ٹوٹے پھوٹے خواب کی طرح تھا۔۔۔ ٹھیک آٹھ سال بعد اسکا  بیٹا نعمان بھی کراچی کی سڑک پر گولی کا نشانہ بنا اور موت کی وادی میں چلاگیا۔ آسیہ بہرے لوگوں کو اپنی داستان سنانا چاہتی تھی لیکن بے زباں شہر میں وە کیسے حرف پہن کر نکلے۔۔۔ اور کون اسکی داستان سنے ؟

آسیہ جیسی کئی باؤلی مائیں اب شہراقتدار کو شہر خموشاں سمجھنے لگی ہیں۔۔۔ جہاں انکے بیٹوں ، شوہروں کی لاشیں دفن ہیں۔۔ مستقبل کے سنہری خواب دفن ہیں۔۔ شہر خموشاں میں قبروں پر ماضی کے چند پھول چڑھائے جاتے ہیں۔۔۔  اس شہر اقتدار میں حکمران بھی گورکن ہیں جن کا دھندا قبروں سے چلتا ہے۔۔۔ جتنی قبریں اتنا منافع۔۔۔  یہ قبرستان ہے جہاں موت کے سائے میں زندگی چلتی ہے۔۔۔ کراچی جیسے شہر میں اب تک اندازہ نہیں کہ قبروں میں لوگوں کو زندہ دفن کیا گیا یا پھر انہیں موت کی نیند نے سلایا ہے۔۔۔

عمر رسیدہ آسیہ کو اب معلوم ہی نہیں کہ اسکا ہمدرد کون ہے۔۔ وہ مصر کی خواتین کی طرح آبدیدہ الفاظ نہیں بیچ سکتی۔۔۔ نہ ہی کسی شاعر کی طرح خواب لے لو ۔۔ خواب لے لو کی صدائیں لگاسکتی ہے۔۔۔ وقت کا فرعون اس کی بھی جان لینے پر تلا ہوا ہے۔ اسکی حکام بالا سے کوئی اپیل بھی نہیں۔۔۔ بس وہ  اب حضرت آسیہ کی طرح پرودگار سے یہی دعا کرتی ہے کہ  پروردگار۔۔۔ بہشت میں اپنے جوار میں ایک گھر بنانا اور فرعون اور اس کے اعمال سے نجات دینا اور اس ظالم قوم سے بچانا۔ حضرت آسیہ کے بارے میں تاریخ بھری پڑی ہے۔ فرعون نے سینہ پر پتھر رکھ کر انہیں ماردیا تھا۔ لیکن کراچی کے شہر خموشاں میں باون سالہ آسیہ اب بھی زندہ ہے۔ جسے جیتے جی خواب اور یادوں کے سمندر میں دفن کردیا گیا ہے۔  حساب کتاب کرنے والا بھی کوئی نہیں۔


Aqib Maniar

No comments:

Post a Comment