Sunday 9 June 2013

بندروں کی زمین !!


بندروں کی زمین !

پنجاب کی تحصیل پنڈ دادخان کے چھوٹے سے گاؤں میں یونس سو بندروں اور ملازم کے ہمراہ آیا۔۔ اس نے ملازم کو گاؤں سے کچھ فاصلے پر بٹھایا اور ہدایت کی کہ جو بھی بندر خریدنے آئے وہ اسے فی بندر سو روپے میں فروخت کرے۔ یونس نے ملازم کو وہی چھوڑا اور خود گاؤں میں چلا گیا ۔۔۔ یونس نے اعلان کرایا کہ وہ دو سو روپے فی بندرخریدنے کو تیار ہے۔۔۔ جسکے پاس بندر ہے وہ اسے فروخت کردے۔۔۔ دیہاتیوں نے سوچا کہ گاؤں کے باہر بیٹھے شخص سے سو روپے میں بندر خریدتے ہیں اور یونس کو دوسوروپے میں فروخت کردیتے ہیں۔۔۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ بندرخریدےاور یونس کو فروخت کرکے سو سو روپے کا منافع کمایا۔۔۔ یونس نے جاتے ہوئے گاؤں والوں سے  دعا کرنے کو کہا کہ اگر شہر میں اسکے بندر پانچ سو روپے میں فروخت ہوئے تووہ واپس آکر مزید بندر خریدے گا۔۔۔ یونس پندرہ دن کے وقفے سے پھر آیا۔۔۔ گاؤں کے باہر بیٹھے شخص کو ہدایت کی کہ اب وہ اب ایک بندر چار سو روپے میں فروخت کرے۔۔۔ یونس پھر گاؤں میں گیا اور اعلان کرایا کہ وہ اب آٹھ سو روپے میں بندر خریدنے کو تیار ہے۔۔۔ اس نے سو بندر خریدے اور کہا کہ وہ اگلی بار آئے گا تو تین ہزار روپے میں بندر خریدے گا۔۔ معاملہ چلتا رہا اور بندروں کی قیمتیں بڑھتی رہیں۔۔۔

کہتے ہیں دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ہوتی۔۔۔ ایک دن یونس نے گاؤں والوں سے  کہا کہ وہ اگلی بار سولہ ہزار روپے میں بندر خریدے گا۔۔۔ اس نے گاؤں کے باہر بیٹھے شخص سے کہا کہ بندر کی قیمتیں دس ہزار روپے تک بڑھادے۔۔۔ ملازم نے ایسا ہی کیا۔۔ گاؤں والے سیدھے سادھے تھے۔۔ کسی نے اپنی بیٹی کا جہیز بیچا۔۔۔ کسی نے کھیت تو کسی نے مکان فروخت کرکے بندر خریدنا شروع کیے۔۔۔ گاؤں والے انتظار کرنے لگے کہ کب یونس آئے اور ان سے سولہ ہزار روپے میں بندر خریدے۔۔۔ لیکن فراڈیا یونس نہ آیا۔۔ وہ اپنے ساتھی کے ہمراہ لوگوں کو بے وقوف بناکر دوسرے گاؤں جاچکا تھا۔۔۔ اب ہر دیہاتی مقروض تھا۔۔۔ گاؤں میں انسان کم اور بندر زیادہ تھے۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ انسان نہیں بلکہ بندروں کی زمین ہے۔۔

پاکستان میں یوں تو ہر گلی محلے میں بندر کو جینٹل مین بناکر کبھی بکری کے ساتھ تو کبھی بھالو کے ساتھ کھڑا کرکے کرتب دکھائے جاتے ہیں۔۔۔ فراڈ کرکے دوسروں کو  بے وقوف بنانا۔۔۔ بندر کا ناچ نچاکر عوام سے پیسے لوٹ کر فرار ہوجانا اب پاکستان میں معمول بنتا جارہا ہے۔ صرف ایک بوگس فنانشل کمپنی کھول لیں۔۔۔ دس ہزار سے دو لاکھ روپے میں لوگوں کو ماہانہ پانچ سو سے پانچ ہزار روپے منافع کا لالچ دیں۔۔۔ اور کبھی بھی پیسہ واپس نکالنے کی گارنٹی دے دیں۔۔۔ پھر کیا،،، کون بکرا ذبح ہونے نہیں آئے گا۔۔۔ ایک سال کے اندر ہی کمپنی بند کریں۔۔ اور وہاں سے فرار ہوجائیں۔۔۔ ایسے کتنے ہی فنانشل ادارے ہیں۔۔۔ جو اس طرح کے کام کررہے ہیں۔۔ اور لوگ بھی کتنے سادہ ہیں جو بغیر پوچھ گچھ چھان بین کے زندگی بھر کی کمائی انہیں سپرد کردیتے ہیں۔۔۔ پولیس بیشتر اوقات ایسے فراڈیے کی کھوج میں ناکام رہتی ہے۔۔۔ لوٹنے والے اور لٹنے والے دونوں افراد کا تعلق زیادہ تر مڈل کلاس سے ہی ہوتا ہے۔۔

پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک فراڈیا پڑا ہے۔۔۔ کوئی انٹرنیٹ کے ذریعے رقوم چراتا تو کوئی میجک یا سپر سم موبائل میں لگاکر دوسروں کا بیلنس اپنے موبائل میں حاصل کرلیتا ہے۔۔۔ ایسے فراڈیے بھی ہیں جو غریبوں کو مفت زمین دینے کا جھانسہ دیتے اور پھر انہیں فائلوں کے اندر دفن کردیتے ہیں۔۔۔ غریبوں کے نام پر پیسہ اکھٹا کرنا ہے تو این جی او کھول لیں۔۔۔ دو بھوکے ننگے بچوں کی تصویر کھینچے ۔۔۔ ہزار دو ہزار روپے کی این جی او رجسٹرڈ کروائیں۔۔۔ کسی پوش علاقے میں کچھ دنوں کےلیے ایک کمرہ پر مشتمل  دفتر کھولیں۔۔۔ اور چیخ چیخ کر بھیک مانگے۔۔ ان بچوں کو تن پر کپڑا ملے نہ ملے ایسے فراڈیوں کو وائٹ لیبل اور پیسہ ضرور مل جاتا ہے۔۔۔ پاکستان میں فراڈ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ این جی اوز کی کارکردگی کی مانیٹرنگ میں بھی کوئی اصول نہیں اپنائے جاتے۔ جینٹل مین پاکستانیوں کو بندر کی طرح رسیوں پر اچھالا جاتا ہے۔

اب فراڈ کہاں نہیں۔۔۔ کیا صرف پیسوں کے لین دین پر ہونے والی غیر قانونی حرکات کو ہی فراڈ کہا جائے۔۔۔ ؟ گارڈن میں اپنی محبوبہ کے انتظار میں بیٹھا عاشق سلیم اپنی مبینہ انارکلی کو دوسرے کے ساتھ پا کر دل میں کیا سوچتا ہوگا ؟ کراچی کی ڈبلیو گیارہ میں منجن سے بھرا بیگ تھام کر لوگوں سے پانچ روپے کی ڈبی کے پچاس روپے لینے والا کون ہوگا ؟ مزاروں میں پیر فقیر کے نام پر پھول اور چپلوں کی دکانیں چمکانے والا کون ہوگا ؟  آپ کئی دن بعد آلو ٹماٹر خریدنے بازار جائیں اور کوئی شاتر ٹھیلے والا آپکو بیس روپے کلو والا ٹماٹر چالیس روپے میں چپکادے تو کیا آپ خوش ہونگے ؟ ہوم ورک ڈائریوں میں والدین کے بوگس دستخط کرنے والے طلباء کو کیاکہیں گے۔۔۔ امتحانی مراکز میں ایک سوال کا ایک جواب تمام طلباء میں گھومتا رہے۔۔ اسے کیا کہیں گے۔۔ جناب فراڈ کرنا تو ہم پاکستانیوں کی نشانی ہے،،، آخر یہ بھی تو ایک فن ہے۔ کیا پلاسٹک منی میں گھپلے یا پھر جعلی سازی کرنے والے ہی فراڈیے ہیں؟
         
پاکستان میں ایسا مانا جاتا ہے کہ آپ کے سر پر جتنے کم بال ہیں آپ اتنے ہی امیر اور آپکا  بینک بیلنس اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔۔۔ میری نظر میں یہ بھی کسی فراڈ سے کم نہیں۔۔۔ یعنی اب بعض لوگ خاص جماعت کے سربراہ کو امیر ترین اور دیگر جماعتوں کے سیاستدانوں کو غریب مان بیٹھیں ؟  پاکستانیوں کو چھوڑیں عالمی سطح پر بات کریں۔۔۔ لینس پاؤلنگ نے کہا تھا کینسر سے متعلق ہونے والی متعدد تحقیق صرف ایک فراڈ ہے۔۔۔ جو بس اپنے اداروں کی عزت بچارہی ہیں۔۔ فراڈ کو ناانصافی کا وزیر تصور کیا جاتا ہے۔۔۔ ایلان گرینسپان نے کہا تھا کہ اگر آپکو کسی چیز کی معلومات نہیں تو کوئی دوسرا آپکو آسانی سے گمراہ کرکے لوٹ سکتا ہے۔۔۔ فیشن اسٹائل کیا دھوکا نہیں ؟ ایک کپڑے کی چھیڑ پھاڑ کرکے دوسرا بنانا اور پھر اسے پرانا کہہ دینا ؟ میرے خیال میں سب جھوٹ ہے،،، دھوکا ہے۔۔۔ اور سب سے بڑا دھوکا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ مانتا ہوں انسان کبھی بندر نہیں تھا لیکن دنیا بندروں کی زمین ہے اور یہ بندر صرف ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں اپنی عقل نہیں لگاتے۔

Aqib Maniar

No comments:

Post a Comment