Saturday 1 June 2013

اللہ دتہ بھکاری تھا اور حکمران ؟

بڑے اور چھوٹے بھکاری۔۔۔

اللہ دتہ ایک پیشہ ور بھکاری تھا۔۔ جو برنس روڈ کی مشہور محمدی مسجد میں تقریبا روزانہ ہی بھیک مانگنے پہنچ جاتا تھا۔۔۔ پولیس نے ایک دن اسے بے ہوشی کی حالت میں سڑک کنارے پایا اور پھر معلوم ہوا کہ اللہ کے نام پر بھیک مانگنے والا اللہ کو پیارا ہوچکا ہے۔۔۔ پولیس اس وقت حیران رہ گئی جب اسے معلوم ہوا کہ اللہ دتہ نے اللہ کے نام پر خوب مال اکھٹا کیا ہے۔۔ اس نے بینک اکاؤنٹ  کے ساتھ ساتھ سیونگ سرٹیفکیٹس بھی لیے ہوئے ہیں۔۔۔ اور اسکے اثاثوں کی مالیت دس لاکھ روپے کے اوپر ہے۔۔۔


پاکستان میں ایسا مانا جاتا ہے کہ یہاں بچوں کو اغواء کیا جاتا اور  انکے ہاتھ پاؤں کاٹ کر بھیک مانگنے کے  دھندے میں لگادیا جاتا ہے۔۔۔  اللہ دتہ کی طرح بھکاری گندے میلے کپڑے پہنے چیخ چیخ کر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن ایسے بھکاریوں کا کیا کیا جائے جو بہترین سوٹ پہن کر خصوصی طیاروں کے ذریعے بیرون ملک جاتے اور ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگتے رہے ہوں۔۔۔


غربت پر کام کرنے والی این جی اوز کے مطابق پاکستان میں ڈھائی  کروڑ سے زیادہ  بھکاری آباد ہیں۔۔۔ جورمضان، عید، محرم اور شب برات کو ایک شہر سے دوسرے شہر کا رخ کرتے۔۔ پیسہ اکھٹا کرتے اور پھر اپنے علاقوں کو لوٹ جاتے ہیں۔۔۔ ان میں سے کوئی ایک زبان، کوئی دو تو کوئی تین، تین زبانیں بولنے کا ماہر ہوتا ہے۔۔۔ اللہ دتہ بھی فارسی اور عربی جانتا تھا۔۔۔ بڑے بھکاری اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی جانتے ہیں۔۔۔


مرکزی بینک کے اعدادو شمار کے مطابق حکومت پاکستان پر ملکی و غیر ملکی قرضوں اور مالی ذمہ داریوں کا بوجھ 15 ہزار 148 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔۔۔ آخر یہ کون ہے جس نے عوام کی اجازت کے بغیر بھاری بھرکم قرضے لیے۔۔۔ عوام کا خون نچوڑا۔۔۔ کئی کئی عذاب دیے۔۔۔ بھوک دی۔۔۔ غربت دی۔۔ خودکشیاں دی۔۔۔ ؟ غریب مزدور تو دن کے بارہ گھنٹہ کام کرکے گھر لوٹا تھا۔۔۔ ملازمین سخت ذہنی اذیت کے بعد سکون کےلیے گھر پہنچے تھے۔۔۔ لیکن کس نے ان ہر ایک شخص کو تراسی ہزار روپے کا مقروض کردیا۔۔۔ بھیک کس نے کب اور کیوں مانگی تھی ؟


اصل بھکاری ہیں کون ؟ اللہ دتہ یا پھر چھیاسٹھ سالہ دور میں گزرنے والے وہ تمام سیاستدان جنھوں نے مزدور غریب طبقہ کو نچوڑا۔۔۔ اور پھر بیرون ملک سے امداد مانگی۔۔۔ وطن عزیز کے دفاع کےلیے عوام کو گھاس کھلانے والے سیاستدان کہاں گئے؟ آخر غریب کو ملا کیا ؟ دو وقت کی روٹی کےلیے دربدر کی ٹھوکریں۔۔۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی کلرکوں کی زندگی۔۔۔ جس ملک میں اللہ دتہ جیسا بھکاری دس لاکھ روپےکا مالک بن جائے اور کالج کا پروفیسر غربت سے مرجائے وہاں کے سیاستدانوں کو کیا کہا جائے ؟

پیشہ ور بھکاری کبھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ وہ جو کام کررہے ہیں انتہائی غلط ہے۔۔۔ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کےلیے وہ طرح طرح کے فضول دلائل دیتے ہیں۔۔۔ بھکاری کہتے ہیں کہ دنیا  میں ہر کوئی کسی نہ کسی سے مانگ رہا ہوتا ہے۔۔۔ کوئی اللہ کو پکارتا ہے،،، کوئی بھگوان سے تو کوئی کسی اور خدا سے۔۔ بھکاری چھوٹے پیمانے پر مانگتے ہیں اور بڑے لوگ بڑے پیمانے پر ۔۔ فرق صرف دونوں کی مارکیٹوں کا الگ ہونا ہے۔۔ لیکن دونوں اللہ دتہ جیسے افراد ہی ہیں۔


دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اور جاپان کھنڈر بنا دیے گئے۔ قدرتی آفت نے حال ہی میں جاپان کو پھر زمین سے اکھاڑ دیا۔۔۔ لیکن دو سال بعد وہ پھر کھڑا ہوگیا۔۔۔ بھیک نہیں مانگی۔۔۔ دوہزار ایک کے بعد بم حملوں اور دھماکوں میں کھنڈر بن جانے والے افغانستان جیسے ملک  نے بھی کوشکول نہیں اٹھایا۔۔۔ خطے میں یہ ظرف شاید اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کو ہی حاصل ہوا ہے کہ وہ ہر وقت کشکول اٹھائے پھرتے ہیں۔ کشکول ٹوٹے نہ ٹوٹے جھوٹے نعروں اور مفاد پرستی سے لوگوں کے دل ضرور ٹوٹتے ہیں۔


اللہ دتہ نے بھیگ مانگ مانگ کر دس لاکھ روپے اکھٹے کیے۔۔۔ لیکن اسکی لاش کئی دن تک اسکے ورثاء کا انتظار کرتی رہی۔۔۔ شاید قبر کا خوف بھولنے والوں کے ساتھ یہی انجام ہوتا ہو۔ وہ نہ ہی  دس لاکھ روپے  خرچ کرسکا اور نہ ہی کسی اصل مستحق کے کام لاسکا۔۔۔ اسکے محلہ میں بھی غربت کے بے رحم خنجرنے سفید پوش شخص کی شہہ رگ کاٹ دی۔۔۔ کیا خدا اللہ دتہ کو معاف کردے گا ؟ مان لیتے ہیں اللہ دتہ بڑا بھکاری تھا۔۔۔ پر حکمران کیا ہیں۔


Aqib Maniar

No comments:

Post a Comment