Wednesday 5 June 2013

پاکستانی معیشت کا اللہ ہی حافظ!!!

اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہو جہاں سیاستدانوں کے پاس معاشی معلومات ہوں نہ ہی عوام کو دو وقت کی روٹی میسر ہو۔۔۔ چارٹر طیاروں میں بیرون ملک جاکر بھیک مانگنے والے بھی صرف جی ڈی پی، غربت اور افراط زر کی اصطلاحات جانتے ہوں۔   ملک کی سالانہ آمدن انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہو اور حکمران عوام کو لوڈشیڈنگ کے خاتمے کےلیے فنڈز کی عدم دستیابی کی لالی پاپ دیتے ہوں۔ ایسے ملک کی معاشی حالت کیسے بہتر ہو جہاں سرکاری اعدادو شمار غربت میں کمی بتلائیں۔۔۔ تنخواہوں میں اضافہ بتائیں اور مہنگائی کی شرح میں ہیر پھیر کرجائیں۔۔ ایسے دیس کے مکینوں کا واقعی اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔


مشہور معیشت دان پول ریان نے کہا تھا کہ ٹیکس کی شرح اگر بڑھائی جاتی رہے تو ملک میں معاشی ترقی رک جاتی ہے۔ لیکن کون سمجھائے ایسے سیاستدانوں کو جنھوں نے قومی خزانہ کو بھرنے کےلیے سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، رئیل پراپرٹی ٹیکس سب کو تین گنا بڑھادیا اور پھر ستم ظریفی دیکھئے ہر چیز کی قیمتیں بڑھاکر غریب دوستی کا نعرہ لگایا۔۔۔


 پچھلی حکومتوں میں سیاسی تنازعات اور سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی نے ملک کی معیشت کو بری طرح متاثر کیے رکھا۔۔۔ دنیا کا بہترین آبپاشی نظام پاکستان  میں موجود ہونے کے باوجود اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب ہو یا پھر پانی کی کٹوتی کا معاملہ،،، سب سے پہلے نزلہ زراعت کے شعبہ پر گرتا۔۔۔ تیس سال کی جدوجہد کے بعد ٹیکسٹائل صنعتوں نے پاؤں پھیلانا شروع کیے تواقتدار میں بیٹھے نیم حکیموں نے  ٹانگ ہی اکھاڑ دی۔۔۔۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد مزدوروں کو ایک ماہ میں بے روزگار کردیا گیا۔۔۔ اور پھر بہترین معاشی مستقبل کی امید لگائی گئی۔۔۔۔


ملک میں معاشی صورتحال اس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ مجموعی افرادی قوت کا پینتالیس فیصد حصہ تصور کیے جانے والے کاشتکار آج پانی کے حصول کےلیے احتجاج کررہے ہیں۔۔۔  ہاں یہ وہی کاشتکار ہیں جنھیں پہلے سیلاب ، پھر بارش اور اب نہروں میں پانی کی قلت نے تباہ کردیا ہے۔۔۔ بھارت کو تجارت کےلیے پسندیدہ ملک قرار دینے کے بعد بدین میں ٹماٹر کی 50 فیصد فصل پڑے پڑے خراب ہوگئی۔۔۔ پٹواری سے مڈل مین تک ہر کوئی بیچ کی خریداری اور فصل کی ترسیل تک  کئی کئی گھپلے کرتا ہے۔۔ ایسے زرعی ملک کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔۔غیر سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں  یوریا کی 494 روپے کی بوری کسان ایک ہزار 250 روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔۔۔ بھارت کے مقابل پاکستانی کاشتکار فصل پر آنے والی کل لاگت پر 345 ارب روپے سالانہ اضافی ادا کرتے ہیں۔ ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ آخر میں حکمران رمضان میں پرائس لسٹیں دکانوں پر پہنچاکر اپنا فرض ادا کردیتے ہیں۔۔


ٹیکسٹائل، کان کنی اور آئی ٹی سے وابستہ صنعتیں بھی غلط معاشی پالیسیوں سے شدید متاثر ہوئیں۔۔۔  چوبیس فیصد حصہ تصور کی جانے والے اس سیکٹر کو بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ نے تباہ کردیا ہے۔ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ ڈیڑھ لاکھ مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔۔۔ صنعتی مالکان کو امید ہے کہ ٹیکسٹائل صنعتیں کبھی بند نہیں ہونگی کیونکہ اب بھی اسکا  تجارتی حجم ساڑھے بارہ ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔  ٹیکسٹائل مصنوعات سب سے زیادہ چین کو برآمد کی جاتی ہیں۔ اور سستے داموں چین سے درآمد ہونے والی اشیاء مقامی مارکیٹوں کو کھاجاتی ہیں۔ پاکستان کی سیاحتی صنعت کو توجیسے نظر لگ گئی ہے۔۔۔ ملک میں کئی سال سے دہشتگردی کے خاتمے کی باتیں کی جارہی ہیں۔۔۔ نئی آنے والی حکومت بھی دہشتگردی ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔۔۔ لیکن معیشت کی بہتری کے بغیر یہ صرف ایک فسانہ ہی ہوگا۔۔۔ جیمز فورسٹل نے ایک بار کہا تھا معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور بین الاقوامی تجارت سے ہی دنیا میں دیرپا امن قائم ہوسکتا ہے۔ لیکن اس میں ذاتی انا نہیں ہونی چاہیے۔


ایسا مانا جاتا ہے کہ صومالیہ میں بحری قزاق عیاشیوں کی زندگی گزارتے ہیں۔۔ نوجوان لڑکے اسے پسند کرتے اور اچھے برے کی تمیز کے بغیر اس زندگی کو اپناتے ہیں۔۔ معیشت دان اس کی بڑی وجہ صومالیہ میں بہتر اقتصادی مواقع کا نہ ہونا بتاتے ہیں۔۔۔ لیکن ٹھہریے۔۔۔ پاکستان میں اب بھی صومالیہ سے کئی گنا بہتر حالات ہیں۔۔۔ ٹیکس میں چھوٹ اور چھوٹے کاروباری افراد کو بہتر سہولیات فراہم کرکے ملکی معیشت کومضبوط کیا جاسکتا ہے۔

 بلدیاتی نظام کا بھی انtextils  دنوں خوب شور ہورہا ہے۔۔۔ امید ہے کوئی نیا بہتر نظام سامنے آئے گا کیونکہ میونسپل نیٹ ورک ملک میں نئے اقتصادی مواقع فراہم کرتی ہے۔۔۔ ہمیں ان مواقع کو خوش آمدید کہنا چاہیے نہ کہ انہیں ہمیشہ کےلیے بند کردیں۔ گوادر پورٹ کا انتظام چین کو دیے جانے اور پھر ایران گیس پائپ لائن منصوبہ سے پاکستانی معیشت کچھ بہتر ہونے کی امید ہے۔ ایشیائی ممالک سے تجارت بڑھاکر پاکستانی کو تجارتی خساروں سے بھی نکالا جاسکتا ہے۔ امید ہے نوازشریف کی حکومت ملک کو معاشی استحکام بخشے گی ورنہ اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

Aqib Maniar

No comments:

Post a Comment